رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے حالات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے حالات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے تھے اس نسل کے ایک شخص نضر بن کنانہ نے قریش کا لقب اختیار کیا اس لحاظ سے اس کی اولاد قریشی  کہلانے لگی خاندان قریش میں قصی نامی ایک شخص بہت ممتاز ہوا ہمارے نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی پانچویں پشت میں پیدا ہوئے

ولادت با سعادت

رسول اکرم کےوالد ماجد کانام عبداللہ اور دادا کا نام  عبدالمطلب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ قریش کے قبیلہ بنی زہرہ کے سردار کی بیٹی تھی شادی کے   چند ماہ بعد حضرت عبداللہ ایک تجارتی سفر سے واپس آ رہے تھے کہ مدینہ میں ان کا انتقال ہو گیا اس کے بعد حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ مکہ میں رہائش پذیر ہو گئی مکہ مکرمہ میں اسی سال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی روایت کے مطابق آپ کی پیدائش 9 ربیع الاول کو کوئی مگر ابن خلدون کے مطابق بارہ ربیع الاول ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ  والہ وسلم کی ولادت سے آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کو بے انتہا خوشی ہوئی وہ اپنے پوتے کو اٹھا کر خانہ کعبہ میں لے گئے دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا

ابتدائی زندگی

جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سےچھ ماہ کے ہو گئے توارب کے دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ سعدیہ کے سپرد کردیا گیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش گاؤں کی کھلی فضا میں ہو سکے دو سال بعد داعیحلیمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس لائیں مگر مکہ میں وباء پھیلی ہوئی تھی اس لئے آپ کو دوبارہ واپس بھیج دیا گیا جہاں اپنے چھ سال کھلی فضا میں پرورش پائی جب آپ کی عم6 سال ہوئی تو آپکی والدہ کا انتقال ہو گیا اور آپ کی تربیت کی تمام تر ذمہ داری مکمل طور پر عبدالمطلب کے کندھوں پر پڑ گئی مگر دو سال بعد وہ بھی رحلت فرما گئے اس کے بعد حضرت ابوطالب نے اپنے یتیم بھتیجے کی پرورش کی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حقیقی اولاد جیسا سلوک کرتے تھے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے چنانچہ جب ان کو تجارت کی غرض سے شام آنا پڑا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے ساتھ لے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 12 سال تھی  اس سفر کے دوران بصرہ کے مقام پر ایک عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی آخرزمان ہونے کی پیشنگوئی کی 15 برس کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ حرب الفجار میں حصہ لیا اس کے بعد ایک معاہدہ حلف الفضول کے تحت قریش کے تمام قبیلوں نے عہد کیا کہ وہ ملک میں امن قائم کریں گے اور مکہ میں آنے والے تمام مسافروں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں گے جوان ہو کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کو آبائی پیشہ اختیار کیا اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام بصرہ اور یمن کے کئی سفر کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچپن ہی سے تمام معاشرتی برائیوں سے شدید نفرت تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیانت اور سچائی کا ہر جانب شہرہ تھا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین اور صادق کے لقب سے پکارتے تھے اور اپنی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھتے تھے

شادی اور بعثت

امیر المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خاندان قریش کی ایک باعزت خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کا تجارتی مال ملک شام لے جا کر فروخت کر آئین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رضامندی کا اظہار کیا  اور مال تجارت شام لے گئے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر جانبداری سے ایک ایک پائی کا حساب دیا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے غلام میسرہ نے بھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امانتداری کی تصدیق کی اس پار حضرت ختیجہ بہت متاثر ہوئی اور اپنی کنیزکی معرفت حضور صلی علیہ وسلم سے نکاح کی درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر چالیس برس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 برس تھی
اگرچہ بچپن ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاکیزگی شرافت اور اخلاق کا نمونہ تھی جس کا اعتراف  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بھی کرتے تھے شادی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم غور و فکر کے لیے اکثر مکہ کے قریب واقعہ غار حراء میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور کئی روز تک اللہ تعالی کی جستجو اور مراقبے میں رہتے اور اس کی عظمت پر غور کرتے یہ معمول کئی برس تک جاری رہا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس برس تھی ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں مصروف تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا پڑھ
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس پر حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ کو اپنے سینے سے لگایا اور پھر  کہاں پڑھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا
اس کے بعد فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھائی اقراء بسم ربک الذی خلق
 اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام غائب ہوگئے اس واقعہ سے آپ بہت پریشان ہو گئے گھر آکر حضرت خدیجہ کو سارا واقعہ سنایا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سارا واقعہ سنا اور آپ کو تسلی دی اور اپنے چاچا کا ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئے جو کہ تورات اور انجیل کے عالم تھے انہوں نے تمام واقعہ سن کر کہا جو فرشتہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہے وہ ناموس اکبر ہے اس سے قبل حضرت موسی علیہ سلام کے پاس بھی آتا تھا حضرت محمد صلی علیہ وسلم اپنی امت کے نبی ہوں گے


اعلان حق اور ہجرت حبشہ

نبوت کے جلیل القدر مرتبہ پر فائز ہونے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز خفیہ طور پر کیا سب سے پہلے مسلمان ہونے والے لوگوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہا زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہا حضرت علی علیہ السلام حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہا حضرت عبداللہ بن عوف حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت سعید بن زید شامل ہیں نبوت کے تین سال تک تبلیغ اسلام کا کام خفیہ طور پر جاری رہا اس کے بعد اللہ تعالی کے حکم پر کھلم کھلا وعظ شروع کردیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر پکارا اہل قریش اگر تم ایکخدا کو مانو اوراس پر ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر سخت عذاب نازل ہو گا اس پر اہل قریش رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن بن گئے اور اذیت دینے لگے اس کے بعد حضرت حمزہ اسلام میں داخل ہوگئے ان کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی جماعت میں بہت تقویت پہنچی مشکل اور نامناسب حالات میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا مشن جاری رکھا تاہم جب اہل قریش کے  ظلم حد سے بڑھ گئے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا 11 مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل یہ قافلہ دشمنوں سے بچتا بچاتا حبشہ پہنچ کر آباد ہو گیا قریش کو یہ بات ناگوار گزری عمر بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو تحائف دےکر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا اس نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا اب سب سے ہجرت کرنے کی وجہ دریافت کی اس موقع پر جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہا نے مسلمانوں کے موقف کو  پر زور الفاظ میں بیان کرتے ہوئے
اے بادشاہ ہم بتوں کو پوجتے تھے مردار کھاتے تھے بدکاری اور قطع رحمی کرتے تھے ہمسایوں کے ساتھ برا پیش آتے تھے ہممیں سے طاقتور کمزور کو کھا جاتا تھا ان حالات میں ہم میں خدا نے ایک پیغمبر بھیجا جس کی صداقت پاکبازی امانت اور حسب نسب سے ہم سب واقف ہیں  ان حالات میں انہوں نے ہمیں خدا کی طرف بلایا اور ہمیں تعلیم دی کہ ہم بتوں کو چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کریں سچ بولیں ایمانداری اور صلہ رحمی کرے انسانوں کا حق ادا کریں خونریزی اورحرام بات کو چھوڑ دیں عورتوں پر تہمت نہ لگائیں نماز پڑھی روزے رکھیں اور زکوۃ دیں ہم اس پیغمبر پر ایمان لائے اس کی تعلیمات قبول کی شرک چھوڑ کر خدا پرستی پر عمل کیا حلال حرام کو پہچانا اور تمام اعمال بد سے باز آئے اس جرم میں ہماری قوم ہماری دشمن ہوگی اور ہمیں طرح طرح کی اذیتیں دیتی ہے ہم نے ان کے ہاتھوں کو بہت تکلیف اٹھائی اور مجبور ہو کر آپ کے ملک میں پناہ حاصل کی

حبشہ کا بادشاہ نجاشی حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہا کی تقریر سے بہت متاثر ہوا اس نے کلام الہی کا ایک حصہ بھی سنا اس کے نتیجے میں اس نے مسلمانوں کو قریشی وفد کے حوالے کرنے سے انکار کردیا چنانچہ مسلمان سکون کے ساتھ رہنے لگے اس سال بعد 83 مرد اور20 عورتوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک اور قافلہ مکہ سے حبشہ کو ہجرت کر گیا مسلمانوں پر اہل قریش کے مظالم میں اضافہ ہوتا رہا شعیب ابی طالب کا واقعہ پیش آیا جس میں قریش مکہ نے  بنو ہاشم سے سماجیی بائیکاٹ کردیا جس کے نتیجے میں تین سال تک بنو ہاشم ایک پہاڑی گھاٹی میں مقیم رہےنبوت کے دسویں برس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صدمات سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ یکے بعد دیگرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو وفادار شخصیات یعنی چچا ابو طالب اور زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا وفات پا گئے اس لئے نبوت کے دسویں سال کو آپ صلی اللی علیہ وسلم نے
عام الحزن قرار دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے حالات

Post a Comment

0 Comments