جزیرا نما عرب کے جغرافیائی محل وقوع اور تاریخی پس منظر

جزیرا نما عرب

جزیرا نما عرب کا محل وقوع
براعظم ایشیاء کے جنوب مغرب میں دنیا کا سب سے بڑا جزیرا نما عرب واقع ہے۔اس کا رقبہ 8 لاکھ 65 ہزار مربع میل ہے۔اس کی آبادی 12 کڑور کے قریب ہے۔جس میں 90 فیصد عرب ہیں۔اس کے مغرب میں بحرا احمر اور خلیج عقبہ ۔مشرق میں خلیج فارس شمال میں ملک شام اور جنوب میں بحر ہند واقع ہے۔چونکہ یہ ملک تین طرف سے سمندر سے گرا ہوا ہےاسلیے اس کو جزیرا نما عرب کہتے ہیں۔

جغرافیائی تقسیم 
جزیرا نما عرب کا بیشتر حصہ ریگستانی علاقے پر مشتمل ہے۔عرب سر زمین صحرائی چٹانی اور اور آتش فشانی علاقے پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ اس میں حجاز کا مقدس مقام بھی ہے۔جس میں مکہ اور مدینہ جیسے مقدس مقامات شامل ہیں۔اس لیے اس کو اسلام کا کہوارہ بھی کہتے ہیں ۔ملک عرب کے جنوب میں شہر یمن ایک زرخیز علاقہ ہے ۔اس کے علاوہ طائف اور ضنعا اسے مقامات ہیں جہاں پانی منجمد ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس میں کوئی ایسا نہ کوئی دریا ہے اور نہ کوئی قابل ذکر ندی نالہ ۔عرب کے وسط میں وجد کا علاقہ واقع ہے۔نجد کا وہ حصہ جو یمن کے ساتھ واقع ہے اس کو نجد یمن اور شمالی حصے کو صرف نجد کہتے ہیں ۔ان کے دو بڑے خظوں کے درمیان یمامہ کا پہاڑی صوبہ واقع ہے۔جو تاریخ اسلام میں بہت مشہور ہے۔

تاریخی پس منظر 
مصر شام اور میسو پوٹیمیا کے تاریخی خطوں کے قریب ہونے کی وجہ سے سر زمیں عرب بہت ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔زبان کے لحاظ سے عرب کے عرب کے تین طبقات ہیں 
عرب بائدہ
عرب عاریہ 
عرب مستعریہ

:عرب بائدہ
 یہ عرب کی قدیم اور نہایت ہی گستاخ قومیں تھیں۔جو ظہور اسلام سے پہلے ہی نییست نابود ہو گئی۔مثلا قوم نوح ۔ قوم عاد ۔قوم ثمود اور قوم لوط وغیرہ۔

عرب عاریہ
عرب کے اصل باشندے عاریہ کہلاتے ہیں ان کا اصل وطن یمن تھا ان کی کئی شاخیں ہیں جیسے بنو قضاعہ۔ بنو قحطان۔ بنو کہلان۔

عرب مستعریہ۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے جو عرب تھے ان کع مستعریہ کہا جاتا ہے۔جو کے حجاز میں آباد تھے۔عرب میں دین الہیِٰ کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت ہی ہو گیا تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیاد رکھی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس کا متولی مقرر کیا ۔اس کے بعد یہاں پر قبیلہ بنو جراہم آباد ہوے۔حضرت اسماعیل نے اس قبیلے کے سردار مضماض جرہمی کی بیٹی سے شادی کی۔ان کے بطن سے بارہ اولادیں ہوئیں۔قبیلہ جراہم کے بعد  کعبہ کی متولیت آل اسماعیل کو منتقل ہو گئی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آل اسماعیل کو بڑا فروغ اور ترقی ملی ان میں عدنان اور بنی قرایش کے بانی فہر جیسی شخصیات نے جنم لیا۔

Post a Comment

0 Comments