ٓحضرت آدم علیہ السلام پیدائیش
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائیشاس وقت ہوئی جب ابلیس کی بادشاہت تقریباََ ختم ہونے والی تھی۔حضرت آدم ؑ سب سے پہلے انسان ہیں ان سے انسانیت کی ابتدا ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس وقت پیدا کیا جب ابلیس کا غرور و تکبر عروج پر تھا۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ۔
میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔
اس پر فرشتوں نے کہا کہ۔
آپ کسی ایسے کو زمین میں مقرر کرنے والے ہیں جو خونریزیاں کرے گا ۔
فرشتوں نے یہ اس لیے کہا کیونکہ اس سے پہلے جنات زمیں پر یہ ہی کچھ کرتے رہے تھے۔انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کے ہم ہر وقت تیری حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں۔کیا ہم کافی نہیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔
جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ ابلیس کے دل میں جو غرور پیدا ہو رہا تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا مگر وہ فرشتے نہیں جانتے تھے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مٹی لانے کا حکم دیا ۔آدم ؑ کی پیدائیش کے لیے جو مٹی لائی گئی۔وہ گارے والی مٹی تھی جب اس کو آسمان کی طرف بلند کیا گیا تو اس میں خمیر اٹھا اور اس لیسدار مٹی سے آدم ؑ کا بت بنایا گیا اور بعد میں اللہ نے اس میں روح پھونک دی۔
ٓآدم ؑ کی پیدائیش کی مٹی۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت جبرائیل کو زمین سے مٹی لانے کے لیے کہا جب وہ زمین پر آئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تم مجھ سے کچھ کم کرو۔اس پر حضرت جبرائیل واپس چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے کہا کے زمین نے مجھ سے تیری پناہ مانگ لی تھی تب میں اسے چھوڑ کر آگیا۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت میکائیل ؑ کوبھجامگر وہ بھی یہ جواب لائے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل کو بھجا ۔جب زمین نے ان سے پناہ مانگی تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہوں کہ میں اللہ کا حکم نہ مانوں ۔یہ کہے کر وہ مٹی لئے آے۔وہ زمیں سے مٹی مختلف جگہوں سے سرخ سیاہ زرد اور مختلف رنگ کی لے کر آے۔پھر اس میں پانی کو مکس کیا گیا اور ایسے ہی رکھ دیا گیا حتاکہ وہ خشک ہو گئی ۔آدم ؑ کو آدم ؑ اس لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ زمین کی اوپر والی طے کی مٹی سے بنائے گئے۔جس کو ادیم کہتے ہیں۔آدم ؑ کی مٹی جب خشک ہو گئی اور وہ ٹھیکرے کی طرح ہو گئی تو اللہ نے آپ کی پیدائیش فرمائی۔
ٓحضرت آدم علیہ السلام کو سجدے کا حکم۔
جب آدم ؑ کا پتلہ مکمل تیار ہو گیا تو اللہ نے آدم ؑ کے جسم میں روح ڈالی ۔جب روح ناک تک پونچی تو آدم ؑ کو چھنک آئی اور انہوں کہا ۔شکر الحمدوللہ اس کے بعد روح آنکھوں اور پیٹ تک پونچی ۔جب پیٹ تک روح پہنچی تو آدم ؑ نے جنت کے پھل دیکھے اور ان کا دل کھانے کو چاہا۔جب ان کے پورے جسم میں روح پہنچ گئی تو خوش ہوے اور پھلوں کی طرف چل پڑے۔اس پر اللہ فرماتا ہے۔کہ انسان جلد باز ہے۔
اس کے بعد اللہ نے تمام فرشتوں کو آدمؑ کو سجدے کا حکم دیا ۔سب فرشتے سجدے میں چلے گئے مگر ابلیس سجدے میں نہ گیا ۔اللہ نے اس سے کہا کہ تم سجدہ کیوں نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا میں آدم ؑ کو سجدہ کیوں کرو کہ میں اس سے افضل ہوں ۔میں آگ سے بنا ہوں اور آدم ؑ مٹی سے ،آگ مٹی سے افضل ہے اس لیے میں آدم ؑ کو سجدہ نہیں کروں گا اس پر اللہ کہا نکل جا میری بارگاہ سے کہ تو منکر اور لعین ہو گیاہے۔تم نے غرور و تکبر کیا جس کا تو حق دار نہ تھا۔ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور اللہ کے غضب کا شکار ہوا ۔اور اللہ نے اسے جنت سے نکال دیا۔
0 Comments