بال جبریل افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں

بال جبریل افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں


افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں 

پوشیدہ نہیں مردِ قلندر کی نظر سے 

معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی
مدت ہوئی گزرا تھا اس راہ گزر سے 

الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے !

پیدا ہے فقط حلقۂ اربابِ جنوں میں 
وہ عقل کہ پاجاتی ہے شعلے کو شرر سے 

جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کرے دل
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے 
یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا

نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصرو کسریٰ

یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دِ لق اویس و چادرِ زہرا

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں 

پوشیدہ نہیں مردِ قلندر کی نظر سے 


حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا

ندا آئی کہ آشوبِ قیامت سے یہ کیا حکم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحائے!

لبلب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے مے لاَ سے 
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ اِلَا

دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے بھی یورپ کا واویلا

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمان جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا!

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہ
نو مید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ

کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
اے طائرِ لا ہوتی ہے اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دار و سکندر سے وہ مردِ فقیرِ اولیٰ

ہو جس کی فقیری میں بوئے اسدؓ اللہی
آئینِ جوانمرداں حق گوئی و بیباکی!
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گہر سے 
یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے


افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں
پوشیدہ نہیں مرد قلندر کی نطر سے

Post a Comment

1 Comments

Anonymous said…
http://tcstrack.tcs.com.pk:10001/